স্বেচ্ছায় সজ্ঞানে যিনা করার পর খাঁটি দিলে তওবা করলে তওবা কবুল হবে কিনা

জায়েয-নাজায়েয,মুবাহাত ,স্বেচ্ছায় সজ্ঞানে যিনা করার পর খাঁটি দিলে তওবা করলে তওবা কবুল হবে কিনা

Fatwa No :
98
| Date :
2025-07-21
জায়েজ-নাজায়েজ / জায়েয-নাজায়েয / মুবাহাত

স্বেচ্ছায় সজ্ঞানে যিনা করার পর খাঁটি দিলে তওবা করলে তওবা কবুল হবে কিনা

سوال:
!السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاته
میری گزارش ہے کہ ایک نازک مسئلے میں رہنمائی فرمائیں۔
میں ایک لڑکی کو پسند کرتا ہوں اور وہ بھی مجھے پسند کرتی تھی۔ ہمارے درمیان تعلقات اس حد تک پہنچے کہ ہم دونوں نے آپس میں زنا کیا۔ اب ہمیں اپنے کیے پر سخت ندامت ہے، اور ہم دونوں نے سچے دل سے اللہ تعالیٰ سے توبہ کی ہے۔
اس لڑکی کی منگنی بچپن میں اس کے گھر والوں نے ایک رشتہ دار لڑکے سے طے کر دی تھی۔ وہ لڑکا اسے کبھی پسند نہیں آیا، لیکن خاندانی دباؤ کے تحت وہ اس منگنی پر خاموش رہی۔ اب ان دونوں کی شادی طے پا گئی ہے، حالانکہ لڑکی دل سے اس رشتے کو قبول نہیں کرتی۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ لڑکی کو شدید ذہنی پریشانی ہے کہ اگر اس کا ہونے والا شوہر یہ جان لے کہ وہ کنواری نہیں ہے تو کیا ہوگا۔ وہ اس معاملے میں سخت اضطراب کا شکار ہے۔
1. کیا اس گناہ کے بعد سچی توبہ سے اللہ تعالیٰ کی نظر میں پاکی حاصل ہو سکتی ہے؟
2. اگر وہ لڑکی اپنے موجودہ منگیتر سے شادی کر لے تو کیا اس نکاح میں کوئی شرعی قباحت ہے؟
3. کیا اس صورت میں لڑکی پر لازم ہے کہ وہ اپنے شوہر کو یہ سچ بتائے، یا وہ خاموشی اختیار کر سکتی ہے؟
4. اگر میں اس سے نکاح کا ارادہ رکھتا ہوں اور ہم دونوں توبہ کر چکے ہیں، تو کیا ہمارا آپس میں نکاح کرنا بہتر ہوگا؟
براہِ کرم قرآن و سنت اور فقہ حنفی (دیوبندی مکتب فکر) کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں تاکہ ہم دونوں اپنی زندگی کا فیصلہ دینی اصولوں کے مطابق کر سکیں۔
اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
والسلام
ایک مجبور مسلمان

الجوابُ حامِدا ًو مُصلیِّا ً وَمُسَلِّمًا

(1)
اگر کوئی شخص سچے دل سے مکمل ندامت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور خالص توبہ کرے، تو اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہ معاف فرما دیتے ہیں۔ لہٰذا حقیقتاً اللہ تعالیٰ کی رحمت سے یہی امید رکھی جا سکتی ہے کہ وہ ضرور معافی عطا فرمائیں گے۔
(2)
نہ شرعی اعتبار سے اس میں کوئی قباحت ہے اور نہ کوئی رکاوٹ۔
(3)
لڑکی کے سابقہ گناہوں کے بارے میں شوہر کو مطلع کرنا شرعاً ضروری نہیں، بلکہ توبہ کے بعد گناہوں کو پوشیدہ رکھنا ہی افضل اور حکمت سے قریب تر ہے۔
(4)
اگر سوال کرنے والا اور وہ لڑکی توبہ کے بعد باہمی رضامندی سے نکاح کرنا چاہیں، اور یہ رشتہ خاندان کی مشاورت سے طے پا جائے، تو یہ ایک بہترین اور مناسب قدم ہوگا۔

مأخَذُ الفَتوی

قال الله نعالى : قل يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (سورة الزمر، الأية : ٥٣)-
وفي أحكام القرآن للجصاص : في تفسير قوله تعالى (الزاني ينكحها إلا زانية أو مشركة الخ) : قال أبو بكر فمن حظر نكاح الزانية تأول فيه هذه الآيه وفقهاء الأمصار متفقون على جواز النكاح لا يوجب تحريمها على الزوج ولا يوجب الفرقه بينهما. (ج:٥، ص:١٠٨، ط:دار إحياء التراث العربي)-
وفي روح المعاني : في تفسير قوله تعالى (الزاني ينكحها إلا زانية أو مشركة الخ ) : أن حرمة التزوج بالزانية أو من الزاني إن لم تظهر التوبة من الزنا (ج:١٨، ص:٣٨٣، ط: الحقانية)-
وفيه أيضا: قال ابن المسيب: وكان الحكم عاما في الزناة أن لا يتزوج أحدهم إلا زانية، ثم جاءت الرخصة ونسخ ذلك بقوله تعالى {وأنكحوا الأيامى منكم} وقوله سبحانه: { فانكحوا ما طاب لكم من النساء](ج:١٨، ص:٣٨٢، ط:دار الحديث)-
وفي صحيح البخاري : عن أبي هريرة رضي الله عنه يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : كل ‌أمتي ‌معافى ‌إلا ‌المجاهرين الخ (‌‌باب ستر المؤمن على نفسه، ج 8، ص 20، رقم : 6069، ط: السلطانية)-
و في سنن الترمذي : عن عائشة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أيما امرأة نكحت بغير إذن مواليها، فنكاحها باطل»، ثلاث مرات «فإن ‌دخل ‌بها ‌فالمهر ‌لها ‌بما ‌أصاب ‌منها، فإن تشاجروا فالسلطان ولي من لا ولي له (‌‌باب في الولي، ج 2، ص 229، رقم: 2083، ط: المكتبة العصرية، بيروت)-
وفي المستدرك للحاكم :- عبد الله بن عمر: أن رسول ﷺ قام بعد أن رحم الأسلمي فقال: "اجتنبوا هذه القاذورة التي نهى الله عنها، فمن ألم فليستتر بستر الله، ‌وليتب ‌إلى ‌الله، فإنه من يبد لنا صفحته نقم عليه كتاب الله عز وجل‌‌ (كتاب التوبة والإنابة، ج:8، ص:425، رقم:7807، ط:دار الرسالة العالمية)-
و في سنن ابن ماجه : عن أبي عبيدة بن عبد الله، عن أبيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «التائب من ‌الذنب، ‌كمن ‌لا ‌ذنب ‌له ( باب ذكر التوبة، ج2، ص 1419، رقم:٤٢٥٠، ط: دار إحياء الكتب العربية)-
و في فتح القدير: فإن تزوج حبلى من زنا من غيره جاز النكاح (ج:٣، ص:٢٣٢، ط: الحقانية)-
وفي عمدة القاري : بأن ستر الله مستلزم لستر المؤمن على نفسه، فمن قصد إظهار المعصية والمجاهرة فقد أغضب الله تعالى فلم يستره. ومن قصد التستر بها حياء من ربه ومن الناس من الله عليه بستره إياه (ج:١٨، ص:٣٢٠، ط: التوفيقية)-
و في تبيين الحقائق : هذا صريح بأن نكاح الزانية يجوز وكذا نكاح الزاني. وهو قول أبي بكر وعمر وابنه وابن عباس وعائشة وابن مسعود وغيرهم رضي الله عنهم (كتاب النكاح، ج:۲، ص: ٤٨٧، ط: سعيد)-
و في المحلى بالآثار : ولا يحل للزانية أن تنكح أحدا، لا زانيا ولا عفيفا حتى تتوب، فإذا تابت حل لها الزواج من عفيف حينئذ. ولا يحل للزاني المسلم أن يتزوج مسلمة لا زانية ولا عفيفة حتى يتوب، فإذا تاب حل له نكاح العفيفة المسلمة حينئذ.(ج:٩، ص:٦٣، ط:دار الفكر)-
وفي رد المحتار : تحت (قوله وينبغي الخ) لأن إظهار المعصية معصية لحديث الصحيحين {كل أمتي معافى إلا المجاهرين }(كتاب الصلاة ، ج:٢، ص:٧٧، ط:سعيد)-

واللہ تعالی أعلم بالصواب
عاشق بن سيف الإسلام عُفی عنه
دار الإفتاء الجامعة البنورية الإسلامية

Fatwa No 98 Verify Now
2     120
Related Fatawa Related Fatawa
...
Related Topics Relative Topics